حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نجف اشرف میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ کے دفتر کی طرف سے محرم الحرم ۱۴۳۹ھ کی آمد کے موقع پر خطباء، ذاکرین، واعظین اور نوحہ خوانوں کے لیے ایک خصوصی پیغام شائع کیا تھا جس کا اردو ترجمہ دوبارہ نشر کی صورت میں ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
مختلف و متعدد موضوعات پہ گفتگو:معاشرے کو روحانی، تربیتی اور تاریخی موضوعات کی ضرورت ہے اور یہ چیز اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ خطیب کے پاس مختلف شعبوں کے حوالے سے موضوعات کا ایک ایسا مجموعہ ہو کہ جو سامعین میں سے رہنمائی کے خواہش مند افراد اور دیگر لوگوں کی ضرورت کو کسی حد تک پورا کر سکے۔
خطیب کا اپنے زمانے کی ثقافت سے آگاہ ہونا:یعنی ہر سال اٹھنے والے عقائدی شبھات، ہر معاشرے کی تبدیل ہونے والی عادات و رسوم اور مومنین پہ گزرنے والا ہر زمانے سے خطیب کو آگاہی حاصل ہونی چاہیے نئی افکار یا عادات یا ثقافت سے آگاہی منبر حسینی کی طرف ایک نئی قسم کی توجہ مبذول کرواتی ہے کہ جو کافی مؤثر اور کامیاب ہوتی ہے۔
قرآنی آیات، معتبر کتب سے روایات اور ثابت شدہ تاریخی واقعات کے بیان کے وقت نہایت دقت سے کام لیا جائے کیونکہ بیان کیے جانے والی روایات یا واقعات کے مصادر کے بارے میں دقت سے کام نہ لینے کی وجہ سے سامعین کے ذہنوں میں منبر حسینی کی منزلت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
منبر سے ایسے خوابوں اور خیالی واقعات کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے کہ جو منبر کے تشخص و شہرت کو نقصان پہنچنے کا باعث بنتے ہیں اور ان سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ منبر ایک بے فائدہ نشریاتی وسیلہ ہے کہ جو سامعین کی ثقافت اور ذہنی بلندی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اچھی تیاری کرنا: خطیب کو چاہیے کہ وہ جن موضوعات پہ گفتگو کرنا چاہتا ہے ان پہ خاص توجہ دے کسی بھی موضوع پہ کی جانے والی گفتگو کی ترتیب، مختلف ابواب میں تقسیم اور اس کا بیان انتہائی واضح، سلیس اور سلسلہ وار ہونا چاہیے خطیب کا موضوعات کی تیاری، گفتگو کی ترتیب اور اسے پُر کشش انداز میں بیان کرنے کے لیے محنت کرنا سامعین کے منبر حسینی کے ساتھ جذباتی و نفسیاتی وابستگی میں مدد دیتا ہے۔
اہل بیت علیھم السلام سے ملنے والا علمی و معنوی ورثہ سارے کا سارا ہی بہت عظیم اور نہایت خوبصورت ہے لیکن یہ خطیب کی مہارت اور صلاحیت ہوتی ہے کہ جو اس سے ایسی احادیث و روایات کے اختیار کے ذریعے ظاہر کرتی ہے کہ جو مختلف ادیان ، فکری مصادر اور معاشروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچتی ہے اہل بیت علیھم السلام کے کلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں انسانی اقدار کے بارے میں گفتگو ہے کہ جس کی طرف مختلف ثقافتوں اور ادیان سے تعلق رکھنے والی ہر قوم کھچی چلی آتی ہے۔
منبر سے معاشرے میں پھیلی ہوئی مشکلات کو ان کے کامیاب علاج کے ساتھ بیان کرنا چاہیے خطیب کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ خاندانی جھگڑوں، نئی اور پرانی نسل کے درمیان موجود خلیج، طلاق کے مسائل اور اسی طرح کے دیگر مسائل کو بیان کرے اور اس کے ساتھ اس کا کوئی حل ذکر نہ کرے۔ کسی مشکل کے حل کا ذکر کیے بغیر اس مشکل کو بیان کرنا منبر کے مؤثر تغییری کردار کی بجائے اس سلسلہ میں مزید بحث و مباحثہ کو جنم دیتا ہے۔ خطباء کو چاہیے کہ وہ معاشرتی، اور نفسیاتی ماہرین سے معاشرتی مسائل کے کامیاب حل کی تعیین کے لیے اس سلسلہ میں صلاح مشورہ کرے تا کہ ہر مشکل کے بارے میں گفتگو کے ساتھ اس کے کامیاب حل بھی بیان ہو اور منبر حسینی جمود کی حالت سے نکل کر معاشرے کی اصلاح اور تہذیب میں رہنما کا مؤثر بن جائے۔
منبر حسینی سے شیعوں کے درمیان موجود اختلافات کو بیان نہ کیا جائے چاہے ان اختلافات کا تعلق فکری شعبہ میں ہو یا ان کا تعلق شعائر سے ہو۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یہ منبر ایک گروہ کا شمار ہو گا دوسرے کا نہیں، یا اس سے اجتماعی فتنہ پیدا ہو گا یا مومنین کے درمیان دھڑا بندی ہو جائے گی منبر حسینی یکجہتی کا پرچم اور حسینی نور کی علامت ہے جس سے سید الشھداء کے چاہنے والوں کے دل ایک راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
عبادات اور معاملات کے حوالے سے جن مسائل کی عام طور پہ لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے انہیں منبر سے آسان انداز میں بیان کیا جائے۔
منبر سے دینی مرجعیت، حوزہ علمیہ اور علماء کی اہمیت کو بیان کرنا چاہیے کیونکہ شیعہ مذہب کی قوت کا راز، عظمت کی علامت اور اس کے کیان کی بلندی اسی میں ہے۔